زمانہ آگے بڑھ گیا اور وہ پیچھے رہ گئے ۔ نہیں ، یہ عصرِ رواں کے لوگ نہیں ۔ نئے تقاضوں سے وہ ہم آہنگ نہیں ہو سکتے۔ پیپلز پارٹی ہار گئی ہے اور نواز لیگ بھی، قاف لیگ حیرت انگیز طور پر بچ نکلی ہے مگر چوہدریوں کا بوجھ اٹھا کر وہ نہیں چل سکتی۔ ملک میں ایک نئی سیاسی جماعت کا ظہور ہے ۔
امیر المومنین ہارون الرشید کے دربار میں ایک کنیز لائی گئی کہ اس کی قیمت ایک لاکھ درہم ہے۔ کہا: اس کے ہاتھ میں کون سا ہنر ہے ۔ جواب ملا: ہاتھ میں نہیں، اس کے پائوں میں ہنر ہے۔ ان سیاستدانوں کے پائوں میں ہنر ہے کہ اشارئہ ابرو پہ رقص کرتے ہیں یا اپنی ادنیٰ خواہشات پر ۔ انہیں دیکھو، ان سب کو غور سے دیکھو۔ پیپلز پارٹی نے فیلڈ مارشل محمد ایوب خاں کے مارشل سے جنم لیا۔ ذوالفقار علی بھٹو کنونشن لیگ کے سیکرٹری جنرل تھے۔ محترمہ فاطمہ جناح(رح) کے خلاف ایوب خاں کے متبادل امیدوار ۔ ڈپٹی کمشنر کوانہوں نے سرکاری جماعت کا ضلعی سیکرٹری اور ایس ایس پی کو سیکرٹری بنانے کی تجویز دی تھی۔ ایوب خان کو کبھی عصر حاضر کا صلاح الدین ایوبی اور کبھی پاکستان کا ڈیگال کہتے تھے۔ ایوب نامقبول ہوئے تو ٹھیک اس وقت بھٹو وزارت سے سبکدوش کر دئیے گئے۔ اقوام متحدہ میں جذباتی تقریروں کے باعث انہیں قوم پرستی کی علامت سمجھا گیا۔ بھارت اور استعمار دشمنی کے علاوہ مفلسوں کے درد کا پرچم اٹھا کر وہ میدان میں آئے توروایتی لیڈروں سے اکتائے عوام ان کے گرد جمع ہونے لگے ۔ شعبدہ باز سیاست کے ایک اور عہد کا آغاز ہوا۔ اعلانِ تاشقند؟ قومی اسمبلی میں انہوں نے اس کی وکالت کی تھی۔ جمہوریت؟ کیا جمہوریت پر یقین رکھنے والا ایک لیڈر ، لیاقت باغ میں اپوزیشن کے جلسئہ عام پر فائرنگ کرتا؟ ڈاکٹر نذیر احمد ، مولانا شمس الدین اور خواجہ محمد رفیق ایسے لوگ قتل کئے جاتے؟ دلائی کیمپ کس زمانے میں سجا؟ ایس ایف ایف کے نام سے ذاتی فوج کس نے بنائی؟ بلوچوں پر فوج کس نے چڑھائی؟ خان عبدالولی خان اور ان کے ساتھیوں کو کس نے جیلوں میں ڈالا؟ بے شک بھٹو کے کارنامے بھی یاد رہیں گے۔ آئین اس نے بنایا، ایٹمی پروگرام کی بنیاد رکھّی، قادیانیوں کو اقلیت قرار دیا، بھارت اور امریکہ کو ٹھکانے پر رکھّا اور بدعنوانی کی حوصلہ شکنی ضرور کی۔ لیکن جمہوریت؟ جمہوریت سے اسے کیا واسطہ ؟ ایوب خان کے سائے میں وہ پروان چڑھا اور کبھی اس ذہنی سانچے سے باہر نہ نکل سکا۔
چوہدری خاندان نے تینوں فوجی آمروں کا ساتھ دیا۔ ایوب خاں، جنرل محمد ضیائ الحق اور جنرل پرویز مشرف۔ اربوں روپے کی جائیدادیں کہاں سے آئی ہیں، ظاہر ہے کہ سرکاری سرپرستی کے طفیل۔ خدانخواستہ کل کلاں کوئی اور عسکری مہم جو آجائے تو چوہدریوں کو ا س کی تائید میں کیا تامل ہوگا؟
اور قائد اعظم ثانی، میاں محمد نواز شریف؟ جنرل محمد ضیائ الحق سے پہلے ، وہ ایر مارشل اصغر خان کی تحریک ِ استقلال کے کارکن تھے۔ جنرل نے انہیں پنجاب کابینہ کا وزیر خزانہ بنایا۔ حال ان کا یہ تھا کہ دستاویزات پڑھ نہ سکتے تھے اور ٹیلی ویژن پر بجٹ پیش کرتے ہوئے پسینے میں بھیگ گئے۔ فوج نے ان کی پیہم سرپرستی کی اور ایجنسیوں نے ہاتھ پکڑ کر چلنا سکھایا۔ صرف جنرل محمد ضیا ئ الحق ہی نہیں ، جنرل اختر عبدالرحمٰن اورجنرل حمید گل بھی ان کے سرپرست تھے۔ روسیوں کی واپسی کے بعد جنرل ضیا ئ الحق نے افغانستان میں امریکی ترجیحات کو قبول کرنے سے انکار کردیا۔ ایٹمی پروگرام کو پایہ تکمیل تک پہنچانے پر اسرائیل اور بھارت پہلے ہی ان کے دشمن تھے ۔ بھارت تو مشرقی پنجاب اور کشمیر میں آزادی کی تحریک کے سبب بھی۔ پراسرار طور پر وہ اپنے ساتھیوں کے ہمراہ قتل کر دئیے گئے تو عوامی ہمدردی کی ایک بے پناہ لہر اٹھی۔ اسلام آباد میں ان کی نمازِ جنازہ میں لاکھوں افراد شریک تھے ۔ اسی لہر پر سوا ر ہو کر اوّل وہ پنجاب کے وزیر اعلیٰ اور پھر وزیر اعظم بنے۔ اگرچہ متوازی ہی نہیں بلکہ ہمدردی کی اس سے بھی بڑی لہر بے نظیر بھٹو کے لیے بھی برپا تھی البتہ انہیں فوج کی حمایت حاصل نہ تھی۔
ان میں سے کوئی آزاد عدلیہ اور آزاد پریس کا حامی نہ تھا۔ بھٹو دور میں اخبارات بند او راخبار نویس جیلوں میں ڈالے گئے ۔ کسی کی مجال نہ تھی کہ اخبار کے پہلے صفحے پر کسی اپوزیشن لیڈر کا دو کالمی بیان چھاپ سکے۔ بھٹو دور میں پہلی دستوری ترمیم عدلیہ کے اختیارات محدود کرنے کے لیے ہوئی۔ نواز شریف کے اقتدار میں سپریم کورٹ پر حملہ ہوا ور چیف جسٹس سجاد علی شاہ کو برطرف کیا گیا ۔ ہفتوں تک پولیس نے روزنامہ جنگ کے دفاتر کا گھیرائو کئے رکھّا ۔ یہ تو بعد میں ہوا کہ بار بار اقتدار سے محروم ہونے کی وجہ سے انہیں آزاد ججوں اور اخبار نویسوں کی ضرورت محسوس ہونے لگی۔
میاں محمد نواز شریف اور جناب آصف علی زرداری طاقتور الیکشن کمیشن ، آزاد عدالتوں اور بے باک میڈیا کو گوارا نہیں کر سکتے۔ زرداری صاحب سے زیادہ میاں صاحب۔ زرداری حکومت عدالتوں کے احکامات ہی تسلیم نہیں کرتی۔ چوہدریوں کا نسخہ مختلف ہے ۔ وہ خریداری کرتے ہیں، ترغیب دیتے ہیں۔ ضرورت پڑے تو ہاتھ جوڑ دیتے ہیں۔ پیپلز پارٹی کے خلاف آسانی سے لکھا جا سکتا ہے ، میاں صاحبان کے خلاف مشکل سے ۔ آزاد صحافت کا لٹمس ٹسٹ مگر یہ ہے کہ کیا آپ چوہدریوں سے اختلاف کر سکتے ہیں۔ بڑے بڑوں کی سانس پھول جاتی ہے ، دانتوں پسینہ آتا ہے۔
زمانہ آگے بڑھ گیا اور وہ پیچھے رہ گئے ۔ نہیں ، یہ عصرِ رواں کے لوگ نہیں ۔ نئے تقاضوں سے وہ ہم آہنگ نہیں ہو سکتے۔ پیپلز پارٹی ہار گئی ہے اور نواز لیگ بھی۔ قاف لیگ حیرت انگیز طور پر بچ نکلی ہے مگر چوہدریوں کا بوجھ اٹھا کر وہ نہیں چل سکتی۔جمہوریت دفن نہیں ہو سکتی ۔ اب وہ نمو پائے گی۔ اللہ کی آخری کتاب یہ کہتی ہے کہ آزمائش کی بھٹی میں ڈال کر کھوٹے اور کھرے الگ کر دئیے جاتے ہیں۔ ریاکاری اور شعبدہ بازی کا وقت گزر چکا۔ توبہ کا دروازہ مگر چوپٹ کھلا ہے۔ ملک میں اب ایک نئی سیاسی جماعت کا ظہور ہے ۔ایسی پارٹی جو قانون کی بالادستی ، آزاد عدلیہ ، آزاد پریس اور آزاد الیکشن کمیشن سے ہم آہنگ رہے۔ ایسے رہنما جو جرائم پیشہ لوگوں سے واسطہ نہ رکھیں، اعتدال کی راہ چلیں، معیشت کی تعمیر نو کر سکیں۔ تعلیم اور صحت کو فروغ دیں ، دہشت گردی کا خاتمہ کر سکیں اور ملک کو غیر ضروری تنازعات سے محفوظ رکھیں۔
0 comments:
Post a Comment