بھارتی شہر گڑگاؤں میں امریکی خلائی ادارے ناسا کے تعاون سے خلا
میں بستیوں کی تعمیر کا خاکہ تیار کرنے کے مقابلے ’اسپیس سیٹلمنٹ ڈیزائن
کمپٹیشن‘ میں پاکستانی طالبات نے کامیابی حاصل کی ہے۔
پاکستانی طالبات کی یہ ٹیم اب آخری مرحلے میں شرکت کی بھرپور تیاریاں کر
رہی ہے۔ دنیا بھر کے سکولوں کے طلبہ و طالبات کے اس منفرد سائنسی مقابلے کا
فائنل اس سال جولائی میں امریکی ریاست ہیوسٹن میں قائم ناسا کے جونسن
اسپیس سینٹر میں ہوگا۔
بھارت میں ہونے والے آٹھویں ایشین ریجنل اسپیس سیٹلمنٹ ڈیزائن کمپٹیشن میں پاکستان، بھارت اور بنگلہ دیش کے 14سے19سال تک کی عمروں کے اسکول کے بچوں شرکت کی۔ اس مقابلے میں شرکت کرنے والے بچوں کی بیس ٹیموں کو 2082 میں خلائی سیارے عطارد کی سطح پر 10ہزار سے زائد انسانوں کے لیے ایک بستی بسانے کا منصوبہ تیار کرنے کا ٹاسک دیا گیا تھا ۔
اپنی نوعیت کے اس منفرد مقابلے میں شرکت کرنے والے بچوں کوتحقیق کے بعد 50 سلائیڈز پر مشتمل ایک پریزنٹیشن تیار کرنا تھی۔ اس کے علاوہ انہیں اس منصوبے کی اسٹرکچرل انجینئرنگ، آپریشن اور انفراسٹرکچر کے حوالے سے بھی معلومات مہیا کرنا تھی۔
اس برس اس مقابلے میں شرکت کرنے والے ان طلبا و طالبات کو ماہر خلائی سائنسدانوں کے ساتھ تبادلہ خیال اور انٹرنیٹ سرچ کے ذریعے تخیلاتی طور پر سال 2082 میں عطارد پر بنائی جانے والی 10 ہزار انسانوں کی بستی کے لیے خوراک اور رہائش کی سہولتوں کی فراہمی، کشش ثقل، سورج کی روشنی اور ہوا کی رفتار کے حوالے سے بھی مطلوبہ معلومات فراہم کرنا تھیں۔ اس مقابلے میں شرکت کرنے والے بچوں کو اس منصوبے کی کاروباری لاگت کم کرنے اور اسے انسانی زندگی کے لیے آرام دہ بنانے کے لیے اقدامات تجویز کرنے کو بھی کہا گیا تھا۔ یہ ساراکام کرنے کے لیے طلبا و طالبات کو 21 گھنٹوں کی ڈیڈ لائن دی گئی۔ اس مقابلے میں اس سال لاہور گرائمر سکول مین گلبرگ کی چودہ طالبات پر مبنی ٹیم نے اپنی بھارتی ٹیم ممبرز کے ساتھ مل کر پہلی پوزیشن حاصل کی ہے۔
پاکستانی طالبات کی ٹیم لیڈر فائزہ طارق نے ڈوئچے ویلے کو بتایا کہ بنیادی طور پر یہ ایک سائنسی مقابلہ تھا لیکن اس مقابلے میں حصہ لے کر انہیں سائنسی ایجادات کو انسانوں کے لیے خوشگوار بنانے اور دوسروں کے ساتھ مل کر کام کرنے سمیت بہت سی دیگر باتیں بھی جاننے کا موقع ملا ہے۔
جیتنے والی ٹیم کی ڈائریکٹر اسٹرکچرل انجینئرنگ مریم رشید نے ڈوئچے ویلے کو بتایا کہ خلا میں انسانی آبادی بسانے کے اس مقابلے میں شرکت ان کے لیے ایک خوشگوار تجربہ ہے۔ ان کے بقول چھوٹے بچوں کا اتنے بڑے منصوبے پر کام کرنا اور خلائی آبادی کو خوراک اور رہائش کی قابل عمل سہولتیں کم لاگت پر فراہم کرنے کے لیے تحقیق کرنا ان کے علم میں غیر معمولی اضافے کا باعث بنا ہے۔ مریم رشید کے بقول اس مقابلے نے یہ بھی ثابت کیا ہے کہ پاکستانی بچوں میں ٹیلنٹ موجود ہے اور وہ سائنس اور ٹیکنالوجی کے میدان میں نمایاں کارکردگی کا مظاہرہ کر سکتے ہیں۔
اس مقابلے میں شرکت کرنے والی عالیہ نامی ایک طالبہ کا کہنا تھا کہ ان کے ذمے اس خلائی آبادی میں بسنے والے انسانوں کی خدمت کے لیے روبوٹس بنانے کا کام لگایا گیا تھا۔ ان کے بقول اس روبوٹ کا ڈیزائن کیا ہو گا، اسے کس طرح کنٹرول کیا جائے گا، یہ کن بیٹریوں پر چل سکے گا، اس میں کونسا سافٹ ویئر استعمال کیا جائے گا،ان کے لیے پیغام رسانی کی صورت کیا ہو گی، ہم نے ان تمام سوالوں کے جواب ڈھونڈنے کی کوشش کی اور اس طرح یہ منصوبہ ہمارے لیے بہت سی نئی چیزیں سیکھنے کا باعث بنا۔
لاہور گرائمر سکول کی پرنسپل نسرین شاہ نے بتایا کہ یہ مقابلہ بظاہر ایک خلائی اور سائنسی مقابلہ تھا لیکن اس میں شرکت کرنے والے بچوں نے ریاضی، طبیعات، آرٹ، کاروباری انتظام اور تعیلم و تحقیق سمیت کئی امور کے بارے میں آگاہی حاصل کی ہے۔
اسی سکول کی وائس پرنسپل بصارت کاظم نے بتایا کہ اس طرح کے مقابلے بچوں میں تحقیقی سوچ اور علم کو فروغ دینے کا باعث بنتے ہیں۔ ان سے اہل علم کو نئے نئے خیالات میسر آتے ہیں اور بچوں میں سائنسی حقائق جاننے اور کچھ اچھا کرنے کی امنگ پیدا ہوتی ہے۔
یہ بات قابل ذکر ہے کہ خلا میں نئی آبادی بسانے کے یہ مقابلے دنیا بھر میں ہر سال منعقد کیے جاتے ہیں۔ ان میں اسکولوں کے طلبہ اور طالبات دونوں شریک ہوتے ہیں لیکن اس سال آٹھویں ایشین ریجنل اسپیس سیٹلمنٹ ڈیزائن کمپیٹیشن کو جیتنے والی پاکستانی ٹیم صرف طالبات پر مشتمل ہے۔ ان میں زیادہ تر بچیاں وظائف پر تعلیم حاصل کر رہی ہیں۔ ان بچیوں کو اس مقابلے کے فائنل راؤنڈ میں شمولیت کیلئے سفری اخراجات کی مد میں کم از کم تیس لاکھ روپے درکار ہیں۔ یہ سپانسر شپ نہ ملنے کی صورت میں ان بچیوں کا فائنل مقابلوں میں شرکت غیر یقینی ہو گی۔
اس سال یہ مقابلہ جیتنے والوں میں پاکستان کی معروف ماہر تعلیم ڈاکٹر ارم خالد کی بیٹی بھی شامل ہیں۔ ایک ماں کے طور پر اپنے احساسات بیان کرتے ہوئے انھوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ اس کامیابی سے جہاں پاکستان کا سافٹ امیج سامنے آیا ہے وہاں سائنس کے میدان میں پاکستانی بچیوں کی اعلیٰ کارکردگی نے اس پراپیگنڈے کی تردید بھی کر دی ہے کہ پاکستان میں خواتین کے لیے آگے بڑھنے کے مواقعے نہیں ہیں۔ انہوں نے ان با صلاحیت بچیوں کی سرکاری طور پر حوصلہ افزائی کرنے کی ضرورت پر زور دیا اور توقع ظاہر کی کہ یہ بچیاں اگلے مرحلے میں بھی پاکستان کی اچھی ایمبسیڈر ثابت ہونگی۔
رپورٹ: تنویر شہزاد، لاہور
ادارت: افسر اعوان
بھارت میں ہونے والے آٹھویں ایشین ریجنل اسپیس سیٹلمنٹ ڈیزائن کمپٹیشن میں پاکستان، بھارت اور بنگلہ دیش کے 14سے19سال تک کی عمروں کے اسکول کے بچوں شرکت کی۔ اس مقابلے میں شرکت کرنے والے بچوں کی بیس ٹیموں کو 2082 میں خلائی سیارے عطارد کی سطح پر 10ہزار سے زائد انسانوں کے لیے ایک بستی بسانے کا منصوبہ تیار کرنے کا ٹاسک دیا گیا تھا ۔
اپنی نوعیت کے اس منفرد مقابلے میں شرکت کرنے والے بچوں کوتحقیق کے بعد 50 سلائیڈز پر مشتمل ایک پریزنٹیشن تیار کرنا تھی۔ اس کے علاوہ انہیں اس منصوبے کی اسٹرکچرل انجینئرنگ، آپریشن اور انفراسٹرکچر کے حوالے سے بھی معلومات مہیا کرنا تھی۔
خلا میں انسانی آبادی بسانے کے اس مقابلے میں شرکت ایک خوشگوار تجربہ تھا، مریم رشید
اس برس اس مقابلے میں شرکت کرنے والے ان طلبا و طالبات کو ماہر خلائی سائنسدانوں کے ساتھ تبادلہ خیال اور انٹرنیٹ سرچ کے ذریعے تخیلاتی طور پر سال 2082 میں عطارد پر بنائی جانے والی 10 ہزار انسانوں کی بستی کے لیے خوراک اور رہائش کی سہولتوں کی فراہمی، کشش ثقل، سورج کی روشنی اور ہوا کی رفتار کے حوالے سے بھی مطلوبہ معلومات فراہم کرنا تھیں۔ اس مقابلے میں شرکت کرنے والے بچوں کو اس منصوبے کی کاروباری لاگت کم کرنے اور اسے انسانی زندگی کے لیے آرام دہ بنانے کے لیے اقدامات تجویز کرنے کو بھی کہا گیا تھا۔ یہ ساراکام کرنے کے لیے طلبا و طالبات کو 21 گھنٹوں کی ڈیڈ لائن دی گئی۔ اس مقابلے میں اس سال لاہور گرائمر سکول مین گلبرگ کی چودہ طالبات پر مبنی ٹیم نے اپنی بھارتی ٹیم ممبرز کے ساتھ مل کر پہلی پوزیشن حاصل کی ہے۔
پاکستانی طالبات کی ٹیم لیڈر فائزہ طارق نے ڈوئچے ویلے کو بتایا کہ بنیادی طور پر یہ ایک سائنسی مقابلہ تھا لیکن اس مقابلے میں حصہ لے کر انہیں سائنسی ایجادات کو انسانوں کے لیے خوشگوار بنانے اور دوسروں کے ساتھ مل کر کام کرنے سمیت بہت سی دیگر باتیں بھی جاننے کا موقع ملا ہے۔
جیتنے والی ٹیم کی ڈائریکٹر اسٹرکچرل انجینئرنگ مریم رشید نے ڈوئچے ویلے کو بتایا کہ خلا میں انسانی آبادی بسانے کے اس مقابلے میں شرکت ان کے لیے ایک خوشگوار تجربہ ہے۔ ان کے بقول چھوٹے بچوں کا اتنے بڑے منصوبے پر کام کرنا اور خلائی آبادی کو خوراک اور رہائش کی قابل عمل سہولتیں کم لاگت پر فراہم کرنے کے لیے تحقیق کرنا ان کے علم میں غیر معمولی اضافے کا باعث بنا ہے۔ مریم رشید کے بقول اس مقابلے نے یہ بھی ثابت کیا ہے کہ پاکستانی بچوں میں ٹیلنٹ موجود ہے اور وہ سائنس اور ٹیکنالوجی کے میدان میں نمایاں کارکردگی کا مظاہرہ کر سکتے ہیں۔
اس مقابلے میں شرکت کرنے والی عالیہ نامی ایک طالبہ کا کہنا تھا کہ ان کے ذمے اس خلائی آبادی میں بسنے والے انسانوں کی خدمت کے لیے روبوٹس بنانے کا کام لگایا گیا تھا۔ ان کے بقول اس روبوٹ کا ڈیزائن کیا ہو گا، اسے کس طرح کنٹرول کیا جائے گا، یہ کن بیٹریوں پر چل سکے گا، اس میں کونسا سافٹ ویئر استعمال کیا جائے گا،ان کے لیے پیغام رسانی کی صورت کیا ہو گی، ہم نے ان تمام سوالوں کے جواب ڈھونڈنے کی کوشش کی اور اس طرح یہ منصوبہ ہمارے لیے بہت سی نئی چیزیں سیکھنے کا باعث بنا۔
لاہور گرائمر سکول کی پرنسپل نسرین شاہ نے بتایا کہ یہ مقابلہ بظاہر ایک خلائی اور سائنسی مقابلہ تھا لیکن اس میں شرکت کرنے والے بچوں نے ریاضی، طبیعات، آرٹ، کاروباری انتظام اور تعیلم و تحقیق سمیت کئی امور کے بارے میں آگاہی حاصل کی ہے۔
لاہور گرائمر سکول مین گلبرگ کی چودہ طالبات پر مبنی ٹیم نے اپنی بھارتی ٹیم ممبرز کے ساتھ مل کر پہلی پوزیشن حاصل کی ہے
اسی سکول کی وائس پرنسپل بصارت کاظم نے بتایا کہ اس طرح کے مقابلے بچوں میں تحقیقی سوچ اور علم کو فروغ دینے کا باعث بنتے ہیں۔ ان سے اہل علم کو نئے نئے خیالات میسر آتے ہیں اور بچوں میں سائنسی حقائق جاننے اور کچھ اچھا کرنے کی امنگ پیدا ہوتی ہے۔
یہ بات قابل ذکر ہے کہ خلا میں نئی آبادی بسانے کے یہ مقابلے دنیا بھر میں ہر سال منعقد کیے جاتے ہیں۔ ان میں اسکولوں کے طلبہ اور طالبات دونوں شریک ہوتے ہیں لیکن اس سال آٹھویں ایشین ریجنل اسپیس سیٹلمنٹ ڈیزائن کمپیٹیشن کو جیتنے والی پاکستانی ٹیم صرف طالبات پر مشتمل ہے۔ ان میں زیادہ تر بچیاں وظائف پر تعلیم حاصل کر رہی ہیں۔ ان بچیوں کو اس مقابلے کے فائنل راؤنڈ میں شمولیت کیلئے سفری اخراجات کی مد میں کم از کم تیس لاکھ روپے درکار ہیں۔ یہ سپانسر شپ نہ ملنے کی صورت میں ان بچیوں کا فائنل مقابلوں میں شرکت غیر یقینی ہو گی۔
اس سال یہ مقابلہ جیتنے والوں میں پاکستان کی معروف ماہر تعلیم ڈاکٹر ارم خالد کی بیٹی بھی شامل ہیں۔ ایک ماں کے طور پر اپنے احساسات بیان کرتے ہوئے انھوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ اس کامیابی سے جہاں پاکستان کا سافٹ امیج سامنے آیا ہے وہاں سائنس کے میدان میں پاکستانی بچیوں کی اعلیٰ کارکردگی نے اس پراپیگنڈے کی تردید بھی کر دی ہے کہ پاکستان میں خواتین کے لیے آگے بڑھنے کے مواقعے نہیں ہیں۔ انہوں نے ان با صلاحیت بچیوں کی سرکاری طور پر حوصلہ افزائی کرنے کی ضرورت پر زور دیا اور توقع ظاہر کی کہ یہ بچیاں اگلے مرحلے میں بھی پاکستان کی اچھی ایمبسیڈر ثابت ہونگی۔
رپورٹ: تنویر شہزاد، لاہور
ادارت: افسر اعوان
0 comments:
Post a Comment