پری پیڈ سم لینے کا طریقہ کار پوسٹ پید سم جیسا کر دیا گیا ھے یکم دسمبر سے یہ نظام لاگو ھو گا جس کو سم نہیں چایئے اسے موبائل کمپنی کے آفس جانا ھو گا اور بچلی کا بل اور اپنا شناختی کارڈ درخواست کے ساتھ لگانا ھوگا پھر فون کمپنی کا نمائیندہ درخواست گزار کے گھر ، دوکان یا دفتر کا دورہ کرے گا اور تفتیش اور چھان بین کے بعد اسکی درخواست قبول کی جاے گی۔
یکم دسمبر سے دوکانوں پر سم فروخت ھونا بند ھو جاے گی ۔ ایک اندازے کے مطابق اس وقت موبائل شاپس پر کروڑوں سمیں موجود ہیں اور کمپنوں اپنا خصارہ سارا صارف پر ڈال دینگی سم لینے کا طریقہ کار نہ صرف پیچیدہ کر دیا گیا ھے بلکہ اسے مہنگا بھی کیا جاے گا، موبائل کمبنیاں اپنے کروڑوں روپوں کے نقصان کا ازالہ بھی صارف پر بوچھ ڈال کر کریں گی۔
کمپنی کے نمائندہ کے سروے کے بعد نادرہ اسکی تصدیق کرے گی پھر سم جاری ھوگی۔ اس نظام سے کرپشن کو مزید فروغ ملے گا کمپنیوں کے نمائیندے سروےکے لیے پیسے لینگے چاے پانی الگ اور پھر نادرہ کے آفس میں جا کر الگ جا کر زلیل ھونا پڑے گا۔ اسکے ساتھ ساتھ نادرہ میں بھی ایجنٹ نمودار ھونگے جو پیسے لے ک
ر درخواست گزار کی سم کی درخواست کو منظور کروا کر ھاتھوں میں لا کر دینگے پیسہ کمائیں گے۔ سم لینے کے طریقہ کار کو شفاف بنانے کے بجاے اسے مزید پیچیدہ کر دیا گیا ھے ابھی دھشت گرد نئی سم لینے کے بجاے راہ گیر سے موبائل چھیننے کے بعد نہ صرف موبائل ہتیا لینگے بلکہ اسکی رجسٹرڈ سم کو دھشت گردی میں استعمال کریں گے۔ پئ ٹی آے کو سم بلاک کرنے اور گمشدہ سم کو بلاک کرنے کے لیے بھی ایک ایمرجنسی نمبر دینا چایئے تا کہ موبائل کھو جانے کی صورت میں وہ متعلقہ کمپنی کو آگاہ کر سکے کہ اسکا موبائل چھین لیا گیا ھے یا اسکی سم گم ھو گئ ھے۔
دھشت گردی کو ختم کرنے میں میں نہیں سمجھتا کہ اس طریقہ کار سے کمی ھوگی بلکہ اسے نہ صرف کرپشن پڑھے گی بلکہ کرائم ریٹ بھی بڑھ جاے گا کیوں کہ دھشت گرد نئی سم لینے کے بجاۓ موبائل چھین کر سم کو استعمال کرنے کی کوشش کریں گے
0 comments:
Post a Comment