Friday, July 5, 2013

خواتین کے ہاتھوں نوعمر لڑکوں کا جنسی استحصال

خواتین کے ہاتھوں نوعمر لڑکوں کا جنسی استحصال

امریکی محکمۂ انصاف کا کہنا ہے کہ ملک کے نابالغوں کے لیے مختص اصلاحی مراکز میں بھی جنسی استحصال کے واقعات جاری ہیں اور اس جرم میں وہاں کام کرنے والی خواتین شامل ہیں۔
ان مراکز میں ہونے والے جنسی استحصال کے نوے فیصد واقعات میں پایا گیا کہ خواتین ملازمین نے اپنی نگرانی میں رہنے والے نوعمر لڑکوں یعنی اٹھارہ سال سے کم عمر کے لڑکوں کو نشانہ بنایا اور ان کے ساتھ جنسی فعل کیا ہے۔

بی بی سی کے واشنگٹن میں موجود نمائندے برجیش اپادھیائے کے مطابق محکمۂ انصاف کی طرف سے جاری اس رپورٹ نے اس شعبے میں کام کرنے والوں کے درمیان ایک بحث چھیڑ دی ہے۔
کیلیفورنیا میں قائم غیرسرکاری تنظیم جسٹ ڈیٹنشن انٹرنیشنل کی سربراہ لوویسا سٹینوو نے ایک بیان میں کہا ہے کہ نابالغوں کے لیے انصاف کے نظام میں یہ پہلو نظر انداز ہوتا رہا ہے اور اصلاحی مراکز میں کام کرنے والے افسران بھی اسے زیادہ اہمیت نہیں دیتے۔
ان کا کہنا تھا کہ ’بعض لوگ یہ دلیل بھی دیتے ہیں کہ یہ نابالغ نوجوان ہی خواتین ملازمین کو بہکا دیتے ہیں اور غلطی ان نوعمروں کی ہی ہے۔ یہ درست نہیں۔‘

سٹینوو کا کہنا ہے کہ ان نوعمروں کو یہ سمجھانے کی ضرورت ہے کہ اس طرح کا جنسی فعل ایک جرم ہے اور آگے چل کر ان پر اس کا بہت برا اثر پڑے گا کیونکہ اس طرح کے تعلقات کو باہمی رضامندی سے ہوئے جنسی فعل کا درجہ نہیں دیا جا سکتا۔ انھوں نے کہا کہ یہ سمجھانا اصلاحی گھروں کے ملازمین کی ذمہ داری ہے۔
وزارتِ داخلہ کو اس طرح کے استحصال کی معلومات سب سے پہلے 2010 میں ملیں جب انہوں نے عام اصلاحی مراکز میں رہنے والے 9000 نوعمروں کا سروے کیا۔
سروے میں شریک لڑکوں میں سے 10 فیصد سے زیادہ نے کہا کہ وہاں کے ملازمین نے ان کا جنسی استحصال کیا ہے اور اُن میں سے 92 فیصد خواتین ملازم تھیں۔
تازہ رپورٹ کے مطابق گزشتہ تین برسوں میں صورتحال میں کوئی خاص تبدیلی نہیں آئی ہے۔
ملک کے 326 بچوں کے اصلاحی گھروں میں ہوئے سروے کے مطابق اب بھی 90 فیصد کیس ایسے ہیں جہاں خواتین ملازمین کے نوعمروں کے ساتھ جنسی تعلقات برقرار ہیں۔
مرد ملازمین کے ہاتھوں بھی ان نابالغوں کا استحصال ہوا ہے اور اس کا شکار بنے دو تہائی نوجوانوں کا کہنا تھا کہ انہیں جنسی تعلقات کے بدلے میں خاص سہولیات دی گئیں اور تحفے بھی ملے۔
21 فیصد نوجوانوں کا کہنا تھا کہ انہیں جنسی عمل کے بدلے شراب اور نشہ آور ادویات دی گئیں۔
سٹینوو کا کہنا ہے کہ اس معاملے کو مزید سنجیدگی سے لینے کی ضرورت ہے کیونکہ سماج میں خواتین کے ہاتھوں مردوں کے جنسی استحصال کو عصمت دری کی طرح نہیں دیکھا جاتا۔

ریاست اوہایو کے اصلاحی پروگرام کے سابق ڈائریکٹر ریگي ولكنسن کا کہنا ہے کہ اس طرح کے معاملات میں رضامندی سے جنسی عمل ہو ہی نہیں سکتا کیونکہ دونوں فریقوں کے درمیان طاقت کے توازن میں آسمان زمین کا فرق ہے۔
اس رپورٹ نے سوشل میڈیا پر بھی بحث چھیڑ دی ہے۔
ایک فریق کا کہنا ہے کہ یہی جرم اگر مردوں نے نابالغ لڑکیوں کے ساتھ کیا ہوتا تو انہیں 25 سال کی سزا ہوتی۔ اگر خواتین ملازمین پر یہ الزام ثابت بھی ہوتا ہے تو انہیں دو تین سال سے زیادہ کی سزا نہیں ہوگی۔
وہیں ایک طرف یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ یہ نابالغ بچے دنیا کو اچھی طرح سمجھتے ہیں اور جسے استحصال کہا جا رہا ہے وہ دراصل باہمی رضامندی سے بنائے گئے جسمانی تعلقات ہیں۔
امریکی بالغ جیلوں میں عصمت دری ایک بڑا مسئلہ ہے لیکن وہاں یہ واقعات قیدیوں کے درمیان ہوتے ہیں اور ان میں حکام اور ملازمین کا براہ راست تعلق نہیں دیکھا گیا ہے۔
نابالغ اصلاحی مراکز یا حراستی مراکز میں بھی ایسے واقعات پیش آتے ہیں لیکن وہاں ملازمین کے کردار پر انگلی اٹھ رہی ہے اور غیرسرکاری تنظیمیں اس کی جڑ تک جانے کی کوشش میں ہیں۔

0 comments:

Post a Comment

Featured Links

 
Design by Free WordPress Themes | Bloggerized by Lasantha - Premium Blogger Themes | Affiliate Network Reviews