Monday, July 29, 2013

IMRAN KHAN DONATED HIS 10 MILLION PLOT TO SHAUKAT KHANUM HOSPITAL

عمران خان نے ایک کروڑ کا پلاٹ شوکت خانم کو عطیہ کر دیا.


عمران خان نے لاہور میں فنڈ ریزنگ مہم کے دوران اپنا ایک کروڑ کا پلاٹ ہسپتال کو عطیہ کر دیا. انہوں نے کہا کہ شوکت خنم کینسر کے مریضوں کو علاج کے لئے بہترین طبی سہولیات فراہم کر رہا ہے، جب میں لفٹر سے گرا تو مجھے بھی علاج کی بہترین سہولیات فراہم کی گئیں. پاکستانی قوم دنیا میں سب سے زیادہ عطیات دیتی ہے اور 1994 سے لے کر 
اب تک شوکت خانم کے لئے 13 ارب روپے کی زکوٰۃ اکٹھی ہوئی.


Friday, July 26, 2013

Mathira discussing her Condom Add with Nida Yasir and Mani in Ramzan (Bold Language)

Mathira discussing her Condom Add with Nida Yasir and Mani in Ramzan (Bold Language)

Thursday, July 25, 2013

PUNJAB POLICE NE BEGAIRATI KI TAMAM HADHEN TORHTE HUE BAAP BETAY KE RISHTAY KE TAKADUS KO PAMAAL KARDIA

Punjab Police ne Begairati ki tamam hadhen torhte hue baap betay ke rishtay ke takadus ko pamaal kardia

Friday, July 19, 2013

زیادتی کی ویڈیو بنا کر بلیک میل کرنیوالے 4 ملزمان گرفتار


لودھراں:پاکستانی صوبہ پنجاب کے ضلع لودھراں میں نویں جماعت کی طالبہ کو جنسی زیادتی کی ویڈ یو بنا کر بلیک میل کرنے والے چار ملزمان کو گرفتار کرلیا گیا ہے۔
نمائندہ دی نیوز ٹرائب کے مطابق لودھراں کے علاقے دنیا پورمیں ملزمان  نے پہلے طالبہ کو ورغلایا کر ویڈیو بنانی اور پھر 6 ماہ تک بلیک میل کر کے جنسی زیادتی کا نشانہ بناتے رہے۔
نمائندے نے بتایا کہ ملزمان ویڈیو کے ذریعے طالبہ کے ساتھ ساتھ اس کے والد کو بلیک میل کرکے 3 لاکھ روپے طلب کیے، مطلوبہ رقم نہ ملنے پر ملزمان نے زیادتی کی ویڈیو انٹرنیٹ پر ڈال دی۔
بدقسمت طالبہ کے والد کی درخواست پر پولیس نے واقعے میں ملوث مرکزی ملزمان انضمام، احتشام، جہانگیر اور شیراز کو گرفتار کر کے ان کے قبضے سے لڑکی کی قابل اعتراض ویڈیو برآمد کرلی ہے۔
پولیس کا کہنا ہے کہ ایک ملزم بلال فرار ہے جس کی گرفتاری کے لئے چھاپے مارے جارہے ہیں جب کہ زیر حراست ملزمان کے خلاف دفعہ 376 اور 292 کے تحت مقدمہ درج کر کے قانونی کارروائی شروع کردی گئی ہے۔

Wednesday, July 17, 2013

PIA medical officer raped by her fellow members

PIA medical officer was raped yesterday in ambulance sources said,
PIA medical officer said that my fellow member who is deputy chief medical officer of PIA with Ambulance driver and a lab attendant raped me in Ambulance and record my video and gave threat to me about the publishing of the video on the social media if I told d it to any one.
He told me I was in ambulance I was to go to PIA hospital but during traveling all these 3 raped me on after the other.
Medical officer pleaded that I want justice from CM Punjab and Chief minister should punish these vultures hardly who have no manners and are dogs by nature.

Tuesday, July 9, 2013

الطاف حسین کی مبشر لقمان کو قتل کی دھمکیاں

الطاف حسین کی مبشر لقمان کو قتل کی دھمکیاں



میں ایم کیو ایم کے خلاف لندن جا رہا ہوں کیس کرنے الطاف حسین کے خلاف بھی۔ ایم کیو ایم کس طرح پاکستان کے خلاف کام کر رہی ہے مبشر لقمان کی زبانی سنیں۔ مبشر لقمان نے ایم کیو ایم کو ننگا کر دیا۔ ویڈیو دیکھیں


Friday, July 5, 2013

خواتین کے ہاتھوں نوعمر لڑکوں کا جنسی استحصال

خواتین کے ہاتھوں نوعمر لڑکوں کا جنسی استحصال

امریکی محکمۂ انصاف کا کہنا ہے کہ ملک کے نابالغوں کے لیے مختص اصلاحی مراکز میں بھی جنسی استحصال کے واقعات جاری ہیں اور اس جرم میں وہاں کام کرنے والی خواتین شامل ہیں۔
ان مراکز میں ہونے والے جنسی استحصال کے نوے فیصد واقعات میں پایا گیا کہ خواتین ملازمین نے اپنی نگرانی میں رہنے والے نوعمر لڑکوں یعنی اٹھارہ سال سے کم عمر کے لڑکوں کو نشانہ بنایا اور ان کے ساتھ جنسی فعل کیا ہے۔

بی بی سی کے واشنگٹن میں موجود نمائندے برجیش اپادھیائے کے مطابق محکمۂ انصاف کی طرف سے جاری اس رپورٹ نے اس شعبے میں کام کرنے والوں کے درمیان ایک بحث چھیڑ دی ہے۔
کیلیفورنیا میں قائم غیرسرکاری تنظیم جسٹ ڈیٹنشن انٹرنیشنل کی سربراہ لوویسا سٹینوو نے ایک بیان میں کہا ہے کہ نابالغوں کے لیے انصاف کے نظام میں یہ پہلو نظر انداز ہوتا رہا ہے اور اصلاحی مراکز میں کام کرنے والے افسران بھی اسے زیادہ اہمیت نہیں دیتے۔
ان کا کہنا تھا کہ ’بعض لوگ یہ دلیل بھی دیتے ہیں کہ یہ نابالغ نوجوان ہی خواتین ملازمین کو بہکا دیتے ہیں اور غلطی ان نوعمروں کی ہی ہے۔ یہ درست نہیں۔‘

سٹینوو کا کہنا ہے کہ ان نوعمروں کو یہ سمجھانے کی ضرورت ہے کہ اس طرح کا جنسی فعل ایک جرم ہے اور آگے چل کر ان پر اس کا بہت برا اثر پڑے گا کیونکہ اس طرح کے تعلقات کو باہمی رضامندی سے ہوئے جنسی فعل کا درجہ نہیں دیا جا سکتا۔ انھوں نے کہا کہ یہ سمجھانا اصلاحی گھروں کے ملازمین کی ذمہ داری ہے۔
وزارتِ داخلہ کو اس طرح کے استحصال کی معلومات سب سے پہلے 2010 میں ملیں جب انہوں نے عام اصلاحی مراکز میں رہنے والے 9000 نوعمروں کا سروے کیا۔
سروے میں شریک لڑکوں میں سے 10 فیصد سے زیادہ نے کہا کہ وہاں کے ملازمین نے ان کا جنسی استحصال کیا ہے اور اُن میں سے 92 فیصد خواتین ملازم تھیں۔
تازہ رپورٹ کے مطابق گزشتہ تین برسوں میں صورتحال میں کوئی خاص تبدیلی نہیں آئی ہے۔
ملک کے 326 بچوں کے اصلاحی گھروں میں ہوئے سروے کے مطابق اب بھی 90 فیصد کیس ایسے ہیں جہاں خواتین ملازمین کے نوعمروں کے ساتھ جنسی تعلقات برقرار ہیں۔
مرد ملازمین کے ہاتھوں بھی ان نابالغوں کا استحصال ہوا ہے اور اس کا شکار بنے دو تہائی نوجوانوں کا کہنا تھا کہ انہیں جنسی تعلقات کے بدلے میں خاص سہولیات دی گئیں اور تحفے بھی ملے۔
21 فیصد نوجوانوں کا کہنا تھا کہ انہیں جنسی عمل کے بدلے شراب اور نشہ آور ادویات دی گئیں۔
سٹینوو کا کہنا ہے کہ اس معاملے کو مزید سنجیدگی سے لینے کی ضرورت ہے کیونکہ سماج میں خواتین کے ہاتھوں مردوں کے جنسی استحصال کو عصمت دری کی طرح نہیں دیکھا جاتا۔

ریاست اوہایو کے اصلاحی پروگرام کے سابق ڈائریکٹر ریگي ولكنسن کا کہنا ہے کہ اس طرح کے معاملات میں رضامندی سے جنسی عمل ہو ہی نہیں سکتا کیونکہ دونوں فریقوں کے درمیان طاقت کے توازن میں آسمان زمین کا فرق ہے۔
اس رپورٹ نے سوشل میڈیا پر بھی بحث چھیڑ دی ہے۔
ایک فریق کا کہنا ہے کہ یہی جرم اگر مردوں نے نابالغ لڑکیوں کے ساتھ کیا ہوتا تو انہیں 25 سال کی سزا ہوتی۔ اگر خواتین ملازمین پر یہ الزام ثابت بھی ہوتا ہے تو انہیں دو تین سال سے زیادہ کی سزا نہیں ہوگی۔
وہیں ایک طرف یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ یہ نابالغ بچے دنیا کو اچھی طرح سمجھتے ہیں اور جسے استحصال کہا جا رہا ہے وہ دراصل باہمی رضامندی سے بنائے گئے جسمانی تعلقات ہیں۔
امریکی بالغ جیلوں میں عصمت دری ایک بڑا مسئلہ ہے لیکن وہاں یہ واقعات قیدیوں کے درمیان ہوتے ہیں اور ان میں حکام اور ملازمین کا براہ راست تعلق نہیں دیکھا گیا ہے۔
نابالغ اصلاحی مراکز یا حراستی مراکز میں بھی ایسے واقعات پیش آتے ہیں لیکن وہاں ملازمین کے کردار پر انگلی اٹھ رہی ہے اور غیرسرکاری تنظیمیں اس کی جڑ تک جانے کی کوشش میں ہیں۔

Thursday, July 4, 2013

شاہ رخ کا اپنی اہلیہ کی بھابھی سے تیسرا بچہ

شاہ رخ کا اپنی اہلیہ کی بھابھی سے تیسرا بچہ

ممبئی:  بھاری اداکار شاہ رخ خان کی اہلیہ گوری نے تیسرے بچے کے لیے سرو گیٹ یعنی”کرائے کی ماں“ کی خدمات اپنی بھابھی سے حاصل کیں اور پیدائش کے بعد بچہ لے کر کاغذات میں خود ماں بن گئی۔
بھارتی میڈیا کی رپورٹس کےمطابق شاہ رخ خان کا تولیدی مادہ ان کی اہلیہ یعنی گوری کی بھابھی کے بطن میں ڈالا گیا تھا۔
گوری خان کی بھابھی شاہ رخ کے بچے کو 27 جون کو جنم دینے کے بعد لندن روانہ ہوگئیں۔
بچے کی پیدائش کے سرٹیفکیٹ پر شاہ رخ خان اوران کی بیوی گوری خان کانام لکھوایا گیا ہے۔
دوسری جانب بھارتی محکمہ صحت بھی اس بات کی تحقیقات کررہا کہ آیا کنگ خان نے بچے کی پیدائش سے قبل اس کی جنس کا پتا کرایا تھا یا نہیں؟
کیوں کہ بھارت میں بچیوں کے جینز کامعلوم ہونے پران کی پیدائش سے قبل ہی قتل کے بڑھتے واقعات کو دیکھتے ہوئے حکومت نے بچوں کی جنس پتہ کرانے کو جرم قراردیاہے۔


چوک میں ایل ای ڈی پر عریاں فلم نشر



چوک میں ایل ای ڈی پر عریاں فلم نشر---- چین کے صوبہ جیلین میں حادثاتی طور پر ایک عریاں ممنوعہ فلم کو چوک میں لگی ہوئی بڑی ایل ای ڈی سکرین پر نشر کیا گیا ہے۔ چینی میڈیا کے مطابق ژین جن مائی فلم کو جس کا انگریزی میں نام دا فاربیڈن لیجنڈ: سیکس اینڈ چوپ سٹیکس ہے عوامی چوک میں لگی ایل ای ڈی پر دس منٹ تک نشر ہوتی رہی جسے دیکھ کر لوگ حیران ہوئے۔

ایک ٹیکنیشن کو جو اپنے کمپیوٹر پر یہ فلم دیکھ رہا تھا اندازہ نہیں ہوا کہ ان کا کمپیوٹر چوک پر لگی ایل ای ڈی کے ساتھ کنکٹ یا تار کے ذریعے جڑا ہوا ہے۔ اطلاعات کے مطابق ٹیکنیشن کو در حقیقت اس ایل ای ڈی کو مرمت کرنا تھا۔ ایل ای ڈی کی مالک ایڈورٹائزنگ کمپنی نے ٹیکنیشن کو جنھیں یان ماؤ کے نام سے پہچانا گیا ہے اس فلم کے برائے راست نشر ہونے کے بارے میں بتایا۔

چینی میڈیا کے مطابق انھوں نے ایل ای ڈی اور کمپیوٹر کے درمیان لگی تار کو ہٹایا اور فلم کی ڈسک کو کھڑکی سے باہر پھینک دیا۔

تاہم اس واقعے کے متعلق خبر تیزی سے پھیل گئی اور فلم کے حادثاتی طور پر صوبہ جیلین کے ریلوے سٹیشن کے قریب عوامی چوک پر نشر ہونے کی تصویریں انٹرنیٹ پر ہر طرف پھیل گئیں۔ کہا جا رہا ہے یہ واقعہ گذشتہ ہفتے ہوا ہے اور پولیس اس کی تحقیقات کر رہی ہے۔ ابتدائی طور پر چینی مائکرو بلاگرز نے اس واقعے پر خوشی کا اظہار کیا۔ ایک بلاگر نے کہا کہ یہ ’ہانگ کانگ میں بنی اے کلاس فلم ہے۔‘ ایک دوسرے بلاگر نے لکھا کہ’یہ ہمارے سرکاری افسروں کے سیکس کی ٹیپ تو نشر نہیں کر رہے تو اس کے بارے میں اتنا شور کیوں۔‘

ژین جن مائی فلم سترویں صدی میں لکھی گئی چینی ناول پر جسے پلم ان دا گولڈن ویس کے نام سے جانا جاتا ہے بنائی گئی ہے۔

اس فلم کاجو ورژن چوک میں نشر کیا گیا تھا وہ ہانگ کانگ میں دوبارہ بنایا گیا تھا جس کا انگریزی نام دا فاربیڈن لیجنڈ: سیکس اینڈ چوپ سٹیکس ہے۔

چین میں فلموں کے حوالے سے سخت قوانین ہیں اور بعض سیاسی طور پر حساس اور عریاں فلموں پر پابندی ہے۔

Featured Links

 
Design by Free WordPress Themes | Bloggerized by Lasantha - Premium Blogger Themes | Affiliate Network Reviews